Monday, 3 March 2014

Filled Under:

معاشرتی منافقت

معاشرتی منافقت
جس طرح ہمارے ہاں چائے کے کھوکھے ہیں بالکل اسی طرح بدیسی ممالک میں شراب خانے ہیں۔ وہاں شادی سے پہلے ہی بچوں کو پیدا کرنے پر بھی کوئی پابندی نہیں۔ اور بہت سی خرافات ہیں۔ لڑکوں کی لڑکوں سے شادی، لڑکیوں کی لڑکیوں سے شادی تک کو قانونی سہولت میسر ہے۔ اس کے باوجود وہ علمی میدان میں، کھیلوں کے میدان میں، قانون کے احترام کے میدان میں، صفائی ستھرائی کے میدان میں اور سائنسی حوالوں سے ہم سے بہت آگے ہیں۔ ان بدیسی ممالک نے کئی مسلمان ممالک کو مقروض کر رکھا ہے۔

آخر ایسا کیا جادو ہے کہ تمام تر خرافات کے باوجود وہ غالب ہیں؟

بہت سوچا۔ آخر ایک ہی بات سمجھ میں آئی کہ ان معاشروں نے سچ کو چھپایا نہیں۔ ان کے ہاں منافقت نہیں۔ انہوں نے گناہ و ثواب کا ایک معاشرتی نظام بنا رکھا ہے۔ اور سربراہ مملکت سے لے کر جھاڑو دینے والے پر اس نظام کی پابندی لازمی ہے۔

جبکہ ہمارے ہاں معاشرتی منافقت عروج پر ہے۔

امیر کے لئے قانون اور ہے۔
غریب کے لئے قانون اور۔

جب کوئی بڑا جرم کرے تو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
جب کوئی غریب جرم کرے تو نچوڑ لیا جاتا ہے۔

عام آدمی ٹیکس نہ دے زندگی اجیرن۔
وزیر موصوف ٹیکس نہ دیں تو لاکھوں حیلے بہانے۔ قانونی جواز

کون سا گناہ ہے جو ہمارے ہاں نہیں ہوتا؟ سبھی خرافات موجود ہیں۔ بلکہ کچھ ایکسٹرا ہے۔

پھر ہم مغلوب کیوں؟ مقروض کیوں؟

ہماری منافقت۔۔۔ ہماری دو رنگی۔۔۔

ہم شیطان کے بھی ہیں۔ رحمان کے بھی ہیں۔
ظاہر کچھ، باطن کچھ۔

تعلیمی میدان میں پست ترین سطح پر۔
جہالت ہی جہالت۔
منافقت ہی منافقت۔

جھوٹ ہی جھوٹ۔

ہمیں آگے بڑھنا ہے تو فیصلہ کرنا ہو گا۔

یا رحمان کو خوش کر لیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فی الفور اسلامی نظام نافذ کر دیں۔

یا اسلام کو مسجد تک محدود کر دیں اور معاشرے کو مکمل طور پر سیکولر قرار دے دیں۔

یا پھر یونہی چلتا رہنا دیں۔

جیسے چل رہا ہے۔

0 comments:

Post a Comment