Tuesday, 4 March 2014

Filled Under:

عورت پردے کی آغوش میں

مو ¿لف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
عورت کی بے پردگی نے اس قدر مرد کو پریشان کیا کہ بے جا نہ ہوگا اگر ایک شوہر کی شکایت اپنی بیوی کی بے پردگی پر جو ایک رسالے میں شائع ہو۔ اس کا ذکر ہم یہاں نہ کریں۔
اس کے مطالعے سے حقیقت سامنے آجائے گی کہ بے پردگی اور بے جا آزادی نے عورت کی صورت کیا سے کیا بنا دی ہے۔
رسالہ لکھتا ہے
”شوہر کہتا ہے! میری بیوی سونے کے موقع پر اپنے آپ کو مکمل طور پر ایک جوکر بنا لیتی ہے۔
وہ ایک بڑی جالیدار ٹوپی اپنے سر پر باندھتی ہے تاکہ سوتے وقت اس کے بال خراب نہ ہون۔ اس کے بعد سونے کا لباس زیب تن کرتے ہے اور پھر سنگھار میز کے سامنے بیٹھ کر اپنا میک اَپ اتارتی ہے۔ اپنے منہ کا کریم ایک خاص مواد سے صاف کرتی ہے اور جب میری طرف پلٹ کر دیکھتی ہے تو وہ میری بیوی کے بجائے کوئی اور عورت دکھائی دیتی ہے۔
اس کی دونوں بھویں ترشی ہوئی ہوتی ہے اور جب وہ اپنا چہرہ صاف کرتی ہے تو ساتھ ہی پنسل سے بنائی ہوئی بھویں مٹ جاتی ہیں اور ایک بھیانک چہرہ میرے سامنے ہوتا ہے۔
اچانک میرے دماغ تک ایک ناگوار بُو پہنچتی ہے۔ دیکھتا ہوں تو پتہ چلا کہ ایک خاص قسم کا کریم جو کافور سے بنا ہوا ہے چہرے کی جلد کی حفاظت کے لیے استعمال کی جا رہی ہے اور کافور کے بو کا کمرے میں پھیلنا مجھے قبرستان کی یاد دلاتا ہے کاش معاملہ یہیں پر ختم ہو جاتا۔ مگر ابھی میرا امتحان باقی ہے۔
وہ کچھ دیر کمرے میں چہل قدمی کرتی ہے پھر نوکر کو آواز دے کر اس سے تھیلیاں منگواتی ہے۔ نوکر چار سفید کھدر کی تھیلیاں لے کر کمرے میں داخل ہوتا ہے اور ساتھ ہی میری حیرت انتہا کو پہنچ جاتی ہے جب وہ پلنگ پر لیٹ کر نوکر سے کہتی ہے ”دو تھیلیاں میرے دونوں پیروں میں اورا دوسرے دونوں تھیلیاں میرے دونوں ہاتھوں میں پہنا دو۔“
نوکر حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ تھیلیاں پہنا کر اس کے سرکَس دیتا ہے تاکہ نیند میں تھیلیاں نکل نہ جائیں۔
میری حیرت اس وقت دور ہوئی جب مجھے پتہ چلا کہ یہ سارا اہتمام دراصل نیند میں میری بیوی کے لمبے لمبے ناخنوں کا لحاف سے الجھنے اور ٹوٹنے کے خطرے کو ٹالنے کے لیے تھا۔
ان سارے اہتمام کے بعد آخر کار میری بیوی سکون کے نیند سو جاتی ہے۔
اور میں دیر تک جاگ کر سوچتا ہوں کہ سکون کس چیز میں ہے؟
بقولِ علامہ اقبال
نہ پردہ‘ نہ تعلیم‘ نئی ہو کہ پرانی
نسوا نیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

0 comments:

Post a Comment