Sunday 30 June 2013

3 Idiots Facebook Version

3 Idiots Facebook Version
.
Aamir Khan *Smiling*
Teacher:" Aap Muskura kyu rhe hai ??
.
Aamir Khan:" Bahot Dino se FB
Page ka Admin banne ki iccha thi,,
aaj Ban gya hu,, bahot maza aa rha hai..
.
.
Teacher:" jyada Maze Lene Ki
Zarurat nahi hai.... ok Tellme What is a
Post ??
.
Aamir Khan Anything that is
posted on Facebook is Post Sir..
Teacher:" Can you Please elaborate ??
Aamir Khan:" Sir, jo bhi Facebook pe log
daalte hai wo post hai sir..
Ghumne gye toh photo daal diya!!
Post hai Sir..
Match dekha
Score daal diya!!! Post hai Sir..
Sir actually hum post se ghire huye
hai sir..
Katrina ki Pic se Ronaldo ki Kick tak!!
Sab post hai sir Ek
second me Comment, ek second me like!
Comment-like comment-like..
Teacher:" Shut up! ADMIN banke ye
karoge??
Comment-like
comment-like..
Hey chatur tum batao??
.
.
Chatur:" Pictures, texts or Videos
posted through Mobile or Tablet
or laptop or desktop via Different
Operating system using Internet
on Facebook is called a Post..
Teacher:" excellent..
Aamir Khan:" par sir maine bhi toh wo hai
bola seedhe shabdo
mein..
Teacher:" Seedhe shabdo me karna
hai toh kisi aur page ke admin bano..:-@
Aamir Khan:" Par sir dusre admin bhi toh..
Teacher:" Get out!
Aamir Khan:" why sir ??
Teacher:" Seedhe Shabdo me bahar jaiye..
.
.
*Aamir Khan goes out and Comes Back*
.
Teacher:" kya hua ??
Aamir Khan:" kuch Bhul gya tha sir..
Teacher:" Kya ??
Aamir Khan:" An Utility button given us to
protect our Private data..
i.e pictures, messages or personal
Information for being stolen or Used for
bad purpose by hackers or anyone else..
Teacher:" kehna kya chahte ho ??
Aamir Khan:" logout sir..
Logout karna bhool gya tha..
Teacher:" seedha seedha nai bol sakte
the.. ??
Aamir Khan:" thodi der pehle try kiya tha
sir, aapko pasand nahi aaya...

Banda Ghareeb Sapnay Aajeeb

Which month were you born in?
(Answer your question !)
1. January......................What would you
do with 1Million dollars ?
2. February ...................Who is your
crush ? (Can be celebrity )
3. March ....................... What would you
wish for with just one wish ?
4. April.......................... Whats your lucky
number ?
5. May .......................... What do you
wanna be when you grow up?
6. June ....................... .. If the world
ended tomorrow who would you
save?
7. July ........................... Would you rather
visit Paris,France or London,England?
8. August ....................... Whats your
favorite subject ?
9.September ................. Would you ever
date a guy/girl that's 3yrs. younger
than you?
10. October ................... Whats your
favorite candy?
11. November ...............Whats your
favorite animal?
12. December................. Whats your
favorite holiday?

اب آپ ٹماٹر کھانا بند کردیجئے

بیگم نے مجھ سے کہا وہ سبزی لانے بازار گئی تھیں اور واپس آکر یہ مشورہ دے ڈالا ۔

اپنی مرضی کے خلاف بیگم کا یہ مشورہ مجھے پسند نہیں آیا ۔ " میں ٹماٹر خوری " کا جواز تلاش کرنے لگا تھا کہ بیگم نے میرے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھ کر رعایت کردی " اگر بند نہیں کر سکتے تو کم ضرور کردیجئے " ۔

"کیوں" میں نے سوال کیا۔

" ٹماٹر مہنگے ہو گئے ہیں۔ ٹماٹر جو کبھی سستے دام ملا کرتے تھے ، اب پھلوں کے بھاؤ مل رہے ہیں ۔ ٹماٹر کے دام سیب سے زیادہ ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو تول کے بجائے عدد کے حساب سے ملا کریں گے! " بیگم نے وجہ بتائی ۔

" مجھے خوشی ہے کہ ٹماٹر نے اپنی اہمیت منوالی ہے ۔ ٹماٹر کو میوے کے دام بکنا ہی چاہیئے تھا"۔ میں نے ٹماٹر سے اپنی اٹوٹ چاہت کا اظہار کیا۔

" کیا مطلب !" بیگم نے حیرت سے مجھے گھورا ۔

" مطلب یہ کہ بنیادی طور پر ٹماٹر سبزی نہیں میوہ ہے، اسے میوہ کی طرح ہی فروخت ہونا چاہیئے ۔" میں نے وضاحت کی ۔

" میں مہنگائی کا رونا رو رہی ہوں اور آپ ٹماٹر سبزی ہے یا پھل ہونے کا بکھیڑا لے کر بیٹھ گئے ۔

"مہنگائی اور میری باتوں سے پریشان ہوتے ہوئے بیگم بولیں ۔ " مہنگائی کی طرح آپ بھی میری سمجھ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں " اور اپنی خریداری سمیٹ کر کچن میں چلی گئیں ۔

ٹماتر پھل ہے یا ترکاری ۔۔؟ یہ بہت قدیم سوال ہے ۔ اس سوال نے کئی طالب علموں کو پریشان کیا ہے اور آج بھی کر رہا ہے ۔ سائنس کہتی ہے کہ اپنی جبلت میں ٹماٹر میوہ ہے ۔ میوہ کی طرح پھلتا پھولتا ہے ۔ اس میں بیج پائے جاتے ہیں لیکن جب یہی پھل باورچی خانہ میں جاتا ہے اور وہاں سے کھانے کی میز پر آتا ہے تو ترکاری بن جاتا ہے ۔ باورچی ٹماٹر کو پھل ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے ساتھ سبزی والا رویہ اپناتے ہیں ۔ پھلوں کو ملنے والی عزت سے بے چارہ محروم ہو جاتا ہے اور باورچی اسے کاٹ کاٹ کر ہانڈیوں میں ڈال کر بھونتے اور پکاتے ہیں۔

ٹماٹر سبزی ہے یا میوہ ، مرغی پہلے آیا یا انڈا جیسا سوال ہے جو صدیوں سے زیر بحث ہے اور جس کا ابھی تک تشفی بخش جوا ب اس لئے دریافت نہیں ہوسکا کہ دونوں باتیں صحیح ہیں ۔ اس سوال پر امریکہ کی عدالتوں میں بحث بھی ہوئی اور آخر 1893ء میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے ٹیکس کی وصولی کے معاملے میں ٹما ٹر کو قانونا سبزی قرار دیا ۔ آج بھی امریکہ میں ٹماٹر کی حیثیت سبزی ہی کی ہے لیکن اس فیصلے سے ٹماٹر کی سائنسی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑا ۔ نباتاتی نقطہ نظر سے ٹماٹر ہر حال میں میوہ ہے اور مستقبل میں بھی وہ میوہ ہی رہے گا۔

مجھے ٹماٹر بہت پسند ہے ۔ میری پسند کی یوں تو کئی وجوہات ہیں لیکن اہم وجہ سائنس کے استاد کی چھڑی کی وہ مار ہے جو میں نے ٹماٹر کو ترکاری بتانے پر کھائی تھی۔ اس وقت میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ ٹماٹر سے اپنی بے عزتی کا بدلہ اسے کھا کر لوں گا۔ جب بھی مجھے ٹماٹر ملتا میں اسے کچا چبا ڈالتا ۔ وقت کے ساتھ غیر محسوس طریقے سے ٹماٹر سے میرا یہ انتقام محبت میں تبدیل ہوتا گیا اور میں اب بدلہ کی بھاؤنا میں نہیں رغبت سے ٹما ٹر کھاتا ہوں ۔ ہر دن اور دن میں تین مرتبہ کسی نہ کسی شکل میں ٹماٹر میرے سامنے ہوتا ہے اور میں ٹماٹر اڑانے میں کوئی تکلف نہیں کرتا۔ ٹماٹر کی یہ خوبی بھی ہے کہ اس کو کھانے کے کئی طریقے ہیں ۔

مجھے ٹماٹر اس لئے بھی پسند ہے کہ اسے پھل کی طرح کھایا اور ترکاری کا طرح استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

آپ پھلوں کے رسیا ہیں تو آم یا سیب کے رس کی طرح " ٹماٹرجوس" پئیں اور اگر ترکاریوں کو صحت کا ضامن سمجھتے ہیں تو" ٹماٹرسوپ " سے شوق فرمائیں ۔اگر کوئی قدرتی غذاؤں میں اعتقاد رکھتا ہو تو وہ ٹماٹر کو کچا تناول کر سکتا ہے اور اگر کوئی اس بات پر ایمان لے آیا ہے کہ پکانے سے غذائی خوبیاں نکھرتی ہیں ، ذائقہ بہتر ہوتا ہے اور مضر اثرات سے چھٹکارا ملتا ہے تو وہ ٹماٹر کا سالن بنا کر کھا سکتا ہے ۔ چٹور زبان والوں کو بھی ٹماٹر مایوس نہیں کرتا ، ان کے لئے وہ چٹنی ، ساس اورکیچ اپ میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ ایسی خوبی کسی دوسرے میوے یا ترکاری میں نہیں پائی جاتی ! سیب کو کچا کھا سکتے ہیں ، اس کا جوس پی سکتے ہیں لیکن اس کا سالن نہیں بنا سکتے۔ اسی طرح بھنڈی کا سالن بنایا جا سکتا ہے لیکن اسے کچا نہیں کھایا جا سکتا۔

ٹماٹر مجھے اس لئے بھی پسند ہیں کہ وہ صحت کے لئے بہت مفید ہے ۔ایک مرتبہ میں نے ڈاکٹر سے ٹما ٹر کو رغبت سے کھانے کے متعلق دریافت کیا تھا ۔ ڈاکٹر نے فرمایا: " شوق سے ٹماٹر کھائیے ۔ ٹماٹر میں وٹامن اے ، سی ،کے اور معدنیات ہوتے ہیں ۔ ان کے ساتھ رنگین مادے بھی پائے جاتے ہیں جو ہماری صحت کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اور یہ مادے بلخصوص کینسر اور دل کے امراض کے خلاف کارگرہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر کی صحت بخش اور امید افزا باتیں سن کر اس دن میں نے دو، چارٹماٹر زیادہ کھائے تھے ۔ اس معاملے میں سیب غیر ضروری شہرت پاگیا ۔ سیب سے زیادہ فائدہ مجھے ٹماٹر میں نظر آتا ہے ۔ اسی لئے میں ٹماٹر کو غریب آدمی کا سیب قرار دیتا اورنعرہ لگاتا ہوں کہ ہر دن ٹماٹر کھائیں اور ڈاکٹر کو دور بھگائیں۔

اب ٹماٹر مہنگے ہونے لگے ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ سستے داموں میں صحت کی حفاظت کیسے کی جائے !

مجھے ٹماٹر اس کی رنگ کی وجہ سے بھی پسند ہے ۔ کھانے سے پہلے میں ٹماتر کو ہاتھ میں لئے آگے پیچھے گھما کر دیکھتے ہوئے مسحور ہو جاتا ہوں ۔ دیکھنے میں طبعت سیر ہونے کے بعد میں ٹماٹر کو اپنے جسم کا حصہ بناتا ہوں ۔ اکثر مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنا شاندار رنگ اور خوبصورت جسامت رکھنے کے باوجود شاعروں اور ادیبوں نے ٹماٹر کو تشبیہ اور استعاروں میں استعمال نہیں کیا ۔ شاید ترکاری ہونے کی تہمت اٹھانے کا یہ خمیازہ ہے ۔ اگر ٹماٹر سیب کی طرح صرف پھل ہوتا تو سرخ دمکتے گالوں کو ٹماٹر سے تشبیہ دی جاتی۔

ٹماٹر کا چاہنے والا ایک میں ہی نہیں آپ بھی ہونگے بلکہ ہزاروں ، لاکھوں لوگ ٹماٹر کے شیدائی اور سودائی ہیں ۔ اسپین کے شہر Burial میں ہر سال ٹماٹر کے ہزاروں عاشق جمع ہوتے اور ایک دوسرے پر ٹماٹر پھنکتے ہیں ۔ Tomatina " La نامی اس تہوار میں ہزاروں کلو ٹماٹر پھینکے جاتے ہیں ۔ لوگ اور سڑکیں لال لال ہو جاتیں ہیں ۔ آپس میں اور ٹماٹر سے دل بستگی کے اظہار کا یہ انوکھا طریقہ ہے ۔ ٹماٹر پھینکنے کے اس جشن سے یاد آیا کہ ناراضی اور غم وغصہ کے اظہارکے لئے بھی ٹماٹر پھینکے جاتے ہیں ۔ محفلوں اور جلسوں میں لوگ بڑے اہتمام سے ٹماٹر لے آتے اور نشانے پر پھینک کر اپنے جزبات کا اظہار کرتے ہیں ۔ ٹماٹر پھینکتے وقت مجھے یقین ہے کہ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ٹماٹر سبزی ہے یا میوہ ۔

ایک بہن کا ایمان افروز واقعہ


میرے بھائی نے مجھے اپنے ایک دوست سے سنا ہوا سچا واقعہ سنایا جو اپنی بہنوں کے لیے بطور نصیحت پیش کررہی ہوں۔

میرے ایک عزیز پیرس میں خاصے عرصے سے مقیم ہیں۔ برسر روز گار ہیں، مگر ابھی تک کسی وجہ سے اپنا گھر نہیں بسا سکے۔ ایک دن میرے پاس آئے تو گھر بسانے کا قصہ چھیڑ دیا۔ وہ کسی مناسب رشتے کی تلاش میں تھے۔ عربی کے الفاظ میں کسی ’’بنت الحلال‘‘ کی تلاش کے لیے مجھ سے بھی کہا۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، مختلف لوگ جن کی بچیاں شادی کی عمرکو پہنچ چکی ہیں، کہتے رہتے ہیں، کسی نہ کسی جگہ مناسب رشتہ دیکھ کر بات چلا دیں گے۔

چنانچہ ایک جگہ میں نے بات شروع کی۔ لڑکی کے والد مراکش کے رہنے والے ہیں اورعرصۂ دراز سے یہاں مقیم ہیں، اولاد یہیں پیدا ہوئی، لہٰذا فرنچ زبان عربی پر حاوی ہوچکی ہے۔ والد اور والدہ سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ہمیں توکوئی اعتراض نہیں رشتہ مناسب ہے، لڑکی کی عمر بھی 20,21سال ہو چکی ہے۔ وہ خود بھی سمجھدار اور پڑھی لکھی ہے، اس سے مشورہ کرکے بتاتے ہیں۔ بات آگے بڑھتی گئی، ہمیں قوی یقین تھا کہ سمبندھ ضرور ہو جائے گا کیونکہ رشتہ ہم پلہ تھا۔ چنانچہ وہ دن بھی آیا کہ فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ لڑکا لڑکی کو دیکھ لے اوردونوں آپس میں گفتگو بھی کرلیں تاکہ بات طے ہوسکے۔

اتفاق کی بات کہ ملاقات کے لیے ریلوے اسٹیشن کا انتخاب ہوا، چنانچہ لڑکا اور لڑکی ذرا دور ہٹ کر بیٹھ گئے۔ لڑکی کی والدہ، والد، میری اہلیہ اور میں ان کو دور سے دیکھ رہے تھے کہ دفعتاً لڑکی نے اپنے پرس سے کچھ اوراق نکالے اور لڑکے کے سامنے رکھ دیے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے لڑکی کی والدہ سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگی کہ دراصل اس کی بیٹی نے اپنے ہونے والے شوہر سے اس کی نجی زندگی کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے ایک سوال نامہ مرتب کیا ہے۔ اس کے جوابات کی روشنی میں وہ اسے اپنا شریک حیات بنانے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی۔ سوالات عربی اور فرنچ دونوں زبانوں میں تھے، مگر زیادہ فرنچ زبان اختیار کی گئی تھی۔ میرا دوست اس زبان سے زیادہ واقف نہیں تھا۔ اس نے دور سے مجھے اشارہ کرکے اپنے پاس بلایا تاکہ میں ان سوالات کا جواب لکھنے میں اس کی مدد کر سکوں۔

وہ سوالات تین صفحات پر مشتمل تھے۔ پہلے صفحہ پر اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں سوالات تھے، مثلاً نام، ولدیت، ایڈریس، قد، وزن، پیشہ، تعلیم، کاروبار، نوکری، گھر اپنا ہے یا پرایا، آپ کتنے گھنٹے ڈیوٹی دیتے اور کتنی تنخواہ لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ عام سے سوالات تھے جن کاجواب میرے دوست نے لکھ لیا تھا، مگر اصلی سوالات اگلے دو صفحات میں تھے۔

ان میں سوالات کچھ اس قسم کے تھے کہ آپ کا اسلام سے اورمذہب سے کس حد تک تعلق ہے؟ پانچوں نمازیں آپ ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ اسلام کی راہ میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟ قرآن پاک کا کتنا حصہ زبانی یاد ہے؟ مہینے میں کتنی مرتبہ آپ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں؟ حدیث کی کون سی کتاب آپ پڑھ چکے ہیں اورکتنی احادیث آپ کو یاد ہیں؟ حقوق الزوجین کے بارے میں ایک صفحہ لکھیں۔ سیرت کی کون سی کتاب آپ کے زیر مطالعہ ہے؟ آپ نے کسی حلقۂ درس میں کبھی شرکت کی ہے، اگرکی ہے توکون سا عالم دین تھا، اور آپ نے اس سے کون سی کتاب پڑھی ہے؟

عامر عقاد کہہ رہا تھا: میں اس لڑکی کے سوال پڑھتا چلا جارہا تھا اورجہانِ حیرت میں گم ہوتاجارہا تھا کہ اس ماحول میں بھی اسلام سے اس حد تک محبت رکھنے والی بچیاں موجود ہیں۔

ایک سوال یہ بھی تھا: کیا آپ اولاد کے خواہش مند ہیں؟ لڑکیاں چاہتے ہیں یا لڑکے؟ شادی کے بعد جو پہلا بچہ ہو گا اس کا نام کیا رکھیں گے؟ آپ اپنی شریک حیات میں کس قسم کی خوبیاں دیکھنا پسند کرتے ہیں؟ وہ سوال نامہ کیا تھا؟ حقیقت میں اس کی زندگی اور طرزفکر کے بارے میں مکمل کھوج تھا۔ ان سوالات کے جوابات ملنے اور پڑھنے کے بعد بلاشبہ ایک شخص کی زندگی کا عکس پوری طرح نظر آجاتا ہے۔

تو پھر آپ کے دوست نے ان تمام سوالوں کا صحیح جواب لکھا؟ میں نے پوچھا۔ دوست بولا: ’’کیوں نہیں؟ اس نے سارے جوابات مفصل دینے کی کوشش کی۔‘‘

’’اچھا تو پھر یہ شادی انجام پذیر ہوئی یا نہیں؟‘‘

’’نہیں بھائی! وہ رشتہ طے نہ ہو سکا۔ لڑکی ان جوابات سے مطمئن نہیں ہوئی اوراس نے اپنے والدین سے کہہ دیا کہ مجھے ایسا شوہر نہیں چاہیے جو اپنے رب کے ساتھ مخلص نہیں۔ جو اپنے خالق کا وفادار نہیں وہ کل کلاں میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟‘‘

اور میں سوچ رہی تھی کہ واقعتا اگر میری بہنیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے ہونے والے شوہر کی اپنے رب سے وفاداری اور تعلق کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں تو پھر ان کی آئندہ زندگی یقینا بے حد خوشگوار گزرے گی ۔"

کل ایک عجیب و غریب ماجرا

کل ایک عجیب و غریب ماجرا ھوا؛
چائے کی دُوکان پر لوگوں کا رش دیکھ کر مُجھے روُکنا ہی پڑگیا؛
قریب جا کے دیکھا تو دو لوگ گلے مل کر دھاڑیں مار مار کر رو رھے تھے؛ مگر حیرانگی اُسوقت اور شدّت اختیار کر گئی جب میں نے دیکھا کہ اُنکے ارد گرد کھڑے لوگ بھی اُن دونوں افراد کو روتا دیکھ کر خود بھی رو رھے ھیں؛

آخر مُجھ سے رھا نہ گیا؛ اور میں نے اُس روتے ھوئے مجمع میں کھڑے ایک روتے ھوئے شخص سے انکے رونے دھونے کا ماجرا دریافت کیا تو وہ اور بھی زور زور سے رونے لگے۔ اور کہنے لگے کہ
بھائی کیا بتاؤں؛ ان دونوں روتے ھوئے اشخاص میں سے ایک کا تعلق پاکستان تحریک انصاف اور دوسرے کا پاکستان مُسلم لیگ (نواز) سے ھے؛ یہ دونوں آج ایک ماہ کے بعد ایک دوسرے سے ملے ھیں؛

تو میں نے پوچھا کہ بھائی اس میں رونے کی کیا بات ھے؛ تو فرمانے لگے کہ بھائی یہ وہی دونوں افراد ھیں جنھوں نے اپنی اپنی الیکشن کیمپین کے دوران ایک دوسرے سے بڑھ چڑھکر ھم سے یہ وعدے کیئے تھے؛
ایک نے کہا تھا کہ شیر کو ووٹ دیکر مُلک سے لوڈشیڈنگ؛ دھشتگردی؛ مہنگائ؛ غربت اور ڈرون حملوں کا دنوں میں خاتمہ کروائیں اور دوسرے جو خان صاحب ھیں اُنھوں نے بھی کہا تھا کہ بلّے کو ووٹ دین ھم مُلک سے لوڈشیڈنگ؛ دھشتگردی؛ غُربت کا فوری خاتمہ کرینگے اور امریکی ڈرونز کو پاکستان میں گھُستے ھی ھم مار گرائینگے؛
تو میں نے پوچھا بھائی انکے رونے کی وجہ تو سمجھ آ گئی پر آپ سب لوگوں کے اتنا رونے کی کیا وجہ ھے؟ ابھی تو ان دونوں کے پورے پانچ سال پڑے ھیں؛

تو وہ صاحب فرمانے لگے کہ اصل رونا تو اسی بات کا ھی تو ھے کہ یہ دونوں افراد ملکر بھی اگلے پانچ تو کیا اگلے دس سالوں میں بھی بجلی؛ پانی؛ جیسے بُنیادی مسائل کا حل پیش نہیں کر سکتے؛

تو میں نے اُن صاحب سے پوچھا کہ چلو ان دونوں کے رونے کی وجہ سمجھ آ رھی ھے؛ مگر ۔ ۔ ۔ ۔ تم سب کیوں رو رھے ھو؛ تو وہ روتے ھوئے معصومیّت سے فرمانے لگے کہ بھائی ھم نے انکی باتوں میں آ کر انھیں ووٹ دیئے تھے :-)

میں نے بڑی عاجزی سے اُنھیں تسلّی دیتے ھوئے کہا کہ بھائی شیر تو جنگل کا جانور ھے اور جنگل میں بجلی نہیں ھوتی؛
اور رھی بات بلّے کی تو؛ بھائی یہ نشان ھی سٹّے کی علامت ھے؛ اور جہاں سٹّا ھوتا ھے وہاں ہار صرف سٹّا لگانے والوں کی ھوتی ھے بُکی کی نہیں اور یہاں آپ نے ووٹ دیکر جو سٹّا کھیلا تھا؛ اُسکی ہار آپ ہی کا مُقدّر بنے گی؛ بُکی تو کل بھی مزے میں تھا اور بُکی آج ایوانوں میں بیٹھ کر مزے کر رھا ھے۔ آپ لوگ اپنا رونا جاری رکھیں؛ٴٴٴ ،،،، یہ کہہ کر میں اُنھیں روتا چھوڑ کر آگے بڑھ گیا،
آج پھر وہیں سے گُزر ھوا تو دیکھا کہ لوگ تو کل کی طرح ہی رو رھے ھیں مگر آج اُنکی تعداد کل سے دُوگنی ھو گئی تھی ۔۔ :-) :-) :-) :-)

ارسطو! ایک خدمت گار لڑکے سے مشہور فلاسفی کیسے بنا؟

ارسطو! ایک خدمت گار لڑکے سے مشہور فلاسفی کیسے بنا؟ تاریخ کے جھروکے سے ایک حیرت انگیز واقعہ
یہ سوا دوہزار سال پہلے کا ذکر ہے ، مشہور یونانی فلسفی افلاطون نے ایتھنز میں اکیڈمی کھولی جہاں وہ امراوشرفا کے لڑکوں کو تعلیم دینے لگا۔ جب اکیڈمی میں خاصی چہل پہل ہوگئی، تو اس نے روزمرہ کام کاج کی خاطر ایک اٹھارہ سالہ لڑکا بطور خدمت گار رکھ لیا۔ وہ لڑکا چائے پانی لاتا اور دیگر چھوٹے موٹے کام کرتا تھا۔ یہ اکیڈمی صرف امرا کے لیے مخصوص تھی۔ چنانچہ لڑکا اپنا کام کرچکتا، تو باہر چلا جاتا۔ اُدھر جماعت کے دروازے بند کیے جاتے اور افلاطون پھر طلبہ کو تعلیم دینے لگتا۔ وہ لڑکا بھی دروازے کے قریب بیٹھا اندر ہونے والی باتیں سنتا رہتا۔
دو ماہ بعد افلاطون کی جماعت کانصاب ختم ہوگیا۔ اب حسب روایت ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں شہر کے سبھی عالم فاضل شرکت کرتے تھے۔ طلبہ کے والدین بھی شریک ہوتے ۔تقریب میں جماعت کے ہرطالب علم کا امتحان بھی ہوتا، وہ یوں کہ ہرایک کو کسی موضوع پر سیرحاصل گفتگو کرنا پڑتی۔ چنانچہ اس تقریب کا موضوع ’’علم کی اہمیت ‘‘ تھا۔
افلاطون کی جماعت سے حال ہی میں فارغ التحصیل ہونے والے طالب علم ڈائس پہ آتے، موضوع کے متعلق کچھ جملے کہتے اور پھر لوٹ جاتے۔ کوئی طالب علم بھی ’’علم کی اہمیت‘‘ پر متاثر کن تقریر نہ کرسکا۔ یہ دیکھ کر افلاطون بڑا پریشان ہوا۔
اچانک خدمت گار لڑکا اس کے پاس پہنچا اور گویا ہوا ’’کیا میں تقریر کرسکتا ہوں؟‘‘ افلاطون نے حیرت اور بے پروائی کی ملی جلی کیفیت میں اسے دیکھا اور پھر لڑکے کی درخواست مسترد کردی۔ اس نے کہا ’’میں نے تمہیں درس نہیں دیا، پھرتم کیسے اظہار خیال کرسکتے ہو؟‘‘ لڑکے نے تب اسے بتایا کہ وہ پچھلے دو ماہ سے دروازے پر بیٹھا اس کا درس سن رہا ہے۔
تب تک افلاطون اپنے تمام شاگردوں سے مایوس ہوگیا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے نوجوان کوحاضرین کے سامنے پیش کیا
لڑکے کو تقریر کرنے کا اشارہ کیا۔ لڑکا بولنا شروع ہوا، تو آدھے گھنٹے تک علم کی فضلیت پر بولتا رہا۔ اس کی قوت گویائی اور بے پناہ علم دیکھ کر سارا مجمع دنگ رہ گیا۔ تقریر بڑی مدلل اور متاثر کن تھی۔ جب لڑکا تقریر مکمل کرچکا، تو افلاطون پھر ڈائس پر آیا اور حاضرین کو مخاطب کرکے بولا ’’آپ جان چکے کہ میں نے پوری محنت سے طلبہ کو تعلیم دی اور دوران تدریس کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی۔ میرے شاگردوں ہی میں سیکھنے کے جوہر کی کمی تھی، اسی لیے وہ مجھ سے علم پانہ سکے ۔ جبکہ یہ (لڑکا) علم کی چاہ رکھتا تھا، لہٰذا وہ سب کچھ پانے میں کامیاب رہا جو میں اپنے شاگردوں کو سکھانا چاہتا تھا۔‘‘
۔آج دنیا اس "لڑکے "کو "ارسطو "کے نام سے جانتی ہے جس نے فلسفے سے لے کر سائنس تک میں اپنے نظریات سے دیرپا اثرات چھوڑے۔ اس کا شمار نوع انسانی کے عظیم فلسفیوں اور دانش وروں میں ہوتا ہے.........

A True Story

آج جب میں کالج سے لوٹی تو کیا دیکھتی ہوں کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک نوجوان اپنی گاڑی میں بیٹھا ہے , جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو۔ ۔ ۔
پھر تو جیسے معمول بن گیا اور میں روز واپسی پر اسے اسی طرح گاڑی میں بیٹھے دیکھتی۔ ۔ ۔ لیکن نوجوان بہت با ادب لگ رہا تھا ۔ ۔ ۔ وہ زیادہ تر اپنا سر نیچھے کیے ہوئے بیٹھا رہتا صرف ایک لمحے کے لیے دیکھتا جب میں اس کے پاس سے گزر کر گھر میں داخل ہوتی ۔ ۔ ۔ لیکن وہ ہے کون؟ اور چاہتا کیا ہے؟

اگر چہ شروع شروع میں مجھے اسے اس طرح دیکھ کر الجھن سی ہوتی تھی ۔ ۔ ۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ دل میں خوش بھی ہورہی تھی کہ کوئی تو ہے جو میرا انتظار کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ پھر جب بھی میں اسے گاڑی میں بیٹھے دیکھتی تو دل زور زور سے دھڑکنا شروع کردیتا ۔ یا اللہ یہ کیا ہے ؟؟ کیا مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے؟؟؟

جوانی کے بعد میری ایک ہی خواہش تھی ۔ ۔ ۔ عمر ڈھل جانے سے پہلے پہلے میری شادی ہوجائے تاکہ رشتہ داروں اور محلے داروں کی طرح طرح کی باتوں سے جان چھوٹے ۔ یہ درست ہے کہ نوجوان کی پرانی گاڑی اس کی غربت کا پتہ دیتی تھی لیکن کوئی بات نہیں وہ با اخلاق تو ہے، جیسا کہ معلوم ہوتا ہے۔

دن گزرتے گئے ۔ ۔ ۔
اب مجھے یقین سا ہونے لگا کہ نوجوان مجھ سے محبت کرتا ہے ۔ ۔ ۔ تبھی تو میرے آنے سے پہلے مجھے دیکھنے آجاتا ہے اور گھنٹوں میرے گھر جانے کے بعد بھی کھڑا رہتا ہے۔
لیکن آخر وہ میرے باپ سے میرا ہاتھ کیوں نہیں مانگتا؟؟
کیا وہ ڈرتا ہے کہ کہیں میرا باپ اسے ٹھکرا نہ دے ؟ کہ وہ ہمارے جوڑ کا نہیں ہے؟؟ لیکن یہ تو کوئی بات نہیں ، مال ودولت تو اللہ کی دین ہے ، آج اگر اس کی گاڑی پرانی ہے تو ہو سکتا ھے کل اس کے دن بدل جائیں۔ اگر وہ اس سے محبت کرتا ہے ، جیسا کہ اس کے طویل انتظار سے معلوم ہوتا ہے تو پھر سٹیٹس کا فرق کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے وہ غربت میں بھی منظور ہے ۔

مہینے سے زیادہ ہوگیا لیکن نوجوان کی جانب سے کوئی حرکت سامنے نہیں آئی ۔ ۔ ۔ اب میں اس سے زیادہ انتظار نہیں کرسکتی تھی ۔ وہ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتا؟ میرے دروازے پر دستک دے کر میرے باپ سے میرا ہاتھ کیوں نہیں مانگتا؟

بالآخر ایک دن میں نے خود ہی جرات کی اور اس کے پاس گئی ۔ ۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔ ۔ میں پہلی دفعہ اسے قریب سے دیکھ رہی تھی وہ زیادہ خوبصورت نہیں تھا لیکن کوئی بات نہیں ۔ ۔ ۔
وہ اپنے مخصوص انداز میں سر نیچھے کیے ہوئے سیٹ پر بیٹھا تھا ۔ ۔ ۔
مجھے پاس دیکھ کر ذرا سا چونکا اور سر اوپر کیا ۔ ۔ ۔
میں نے پوچھا کہ آپ ہمارے گھر کے سامنے گھنٹوں کیوں کھڑے رہتے ہو؟؟؟؟

"اس لیے کہ آپ کے WiFi کو پاسورڈ نیں لگا ھے"اس نے جواب دیا !!!!! :P

TAKE CARE OF YOUR EYES WHILE USING PC

During a recent visit to an optician, one of my friend was told of an exercise for the eyes by a specialist doctor that he termed as 20-20-20. It is apt for all of us, who spend long hours at our desks, looking at the computer screen.

I Thought I'd share it with you.

20-20-20

Step I :-

After every 20 minutes of looking into the computer screen, turn your head and try to look at any object placed at least 20 feet away. This changes the focal length of your eyes, a must-do for the tired eyes.

Step II :-

Try and blink your eyes for 20 times in succession, to moisten them.

Step III :-

Time permitting of course, one should walk 20 paces after every 20 minutes of sitting in one particular posture. Helps blood circulation for the entire body.

Circulate among all if you care. They say that your eyes are mirrors of your soul, so do take care of them, they are priceless.

Hadees


رسول الله صلی الله عليه وسلم سے پوچھا گیا کہ کوئی ایسا عمل بتائیں جو جنت میں لے جائے؟ تو فرمایا:

الله کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹہراؤ، نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو.

صحیح بخاری 1396 جلد 2

Pakistani Girls No

Pakistani Girl Lahore Telenor Mobile Numbers For Chat / Girls Friendship Numbers

First Name: Sumaika
 Last Name: Anjum
 CiTY: Lahore
 Contact:  03415138729
 Network: Telenor    

Kiran Khan Jahlam Girls Mobile Numbers 2013 For Friendship / Girls Moblie Number

First Name     Kiran
Last Name     Khan
Nick Name  Mani
Sex            Female
City           Jahlam
Mobile Number  03075121997

Ayesha Karachi Girls Mobile Numbers 2013 For Friendship With Me

First Name     Ayesha
Last Name     Khan
Nick Name     
Sex            Female
City           Karachi
Mobile Number  03146107500

 

 

How To Open Web In Pakistan

How to Open Web In Pakistan Follow Some Good Steps.
1.Download This Software Know (Hotspot Shield).
2.Install This Software.
After  Downloading and installing web is know this shap.


Open Software And Click To Connect .

Know Your Location Is Change .

 Reloaded Web Page.
Know Your web site is open.

Saturday 29 June 2013

How To Increase Your Internet Speed

Speed Up Your Net Speed By 20%1. First you go to start button
2. Go To Run
3. Type gpedit.msc And Then Hit Enter.
4.Then Expand Administrative Templates.
5.Then Network
6.Then QoS Packet Scheduler.

Now A New List Appear . Click On Limit Reservable Bandwidth.

Just Disable it.

Now You Click On Apply.
That's It Now You Are Done !!

Now Just Restart Your Computer . And I hope You will Get change in Your Speed

Some Basic Tricks From My Side-

1. Use IDM To Boost Your Downloading Speed.
2. Use A Good Anti-virus in Your Computer.
3. Remove Unwanted Add-ons, Software,Unwanted Files Form Your Computer.
4.Update Your Drivers Periodically.
5.Keep A Good Maintenance Of Your Computer.

Scare your friends by the profile of dead person - Awesome Prank Ever

 

 1. First Copy this link and Send it
to your friend.
www.sinthaistudio.com/thehouse/alrena

2. Lie him that it is a Profile of a
dead person (somehow scare him
with your story)


3. Ask him to click on the
“photos” option to check the
image and ask him to wait some
seconds.
 

4. When he is trying to click there,
this Ghost animation will be on
screen suddenly.
 

Enjoy

Hidden cameras


آج میں ایک انتہائی نازک موضوع پر بات کرنے جارہا ہوں ۔۔ میرا ایک دوست جو موبائل میں سونگ ڈاونلوڈنگ کا کام کرتا ہے ۔۔ اس کے ذریے کچھ باتیں جو میرے علم میں آئیں ہیں انتہائی افسوسناک اور تشویشناک ہیں ۔۔ آپ کیلئے نہایت ہی حیرت اور صدمے کا باعث ہوسکتی ہیں ۔۔ یہ بات کہ ہم کس قدر اخلاقی تنزلی کا شکار ہوچکے ہیں ۔۔ ویسے تو یہ اکیلے ہمارا مسئلہ نہیں دنیا بھر کا مسئلہ ہے ۔۔ لیکن جس تیزی سے ہمارا ملک اس دلدل میں غرق ہوتا جارہا ہے ۔۔ اگر اسکی مناسب طریقے سے روک تھام نہیں کی گئی تو بہت جلد ہم ایک دوسرے سے منہ چھپائے پھر رہے ہونگے ۔۔

کسی بھی شادی ہال یا ہوٹل میں ایک چھوٹا سا خفیہ کیمرہ لگادیا جاتا ہے ۔۔ اور خواتین کی انتہائی پرائیویسی کی حالت کو ریکارڈ کرلیا جاتا ہے ۔۔ بعد ازاں یہ ویڈیوز بھاری قیمت پر مارکیٹ میں فروخت کردی جاتی ہیں ۔۔ حد تو یہ ہے کہ بڑے شاپنگ سینٹر اور سینما ہالز کے باتھ رومز بھی جدید دور کی اس لعنتی عفریت سے محفوظ نہیں ۔۔ ضرورت ہے اس وقت تدبر کی ۔۔ اور بہترین حکمت کے ساتھ اپنے گھر کی خواتین کو تربیت دینے کی ۔۔ ہمارے ہاں شعور خواتین میں ابھی اس درجہ بلند نہیں ہے ۔۔ جدید دور کے تقاضوں کو سمجھنے کیلئے ۔۔ کہ وہ خود سے ان باتوں کو سمجھ کر احتیاط کا مظاہرہ کریں ۔۔

بہت کچھ ہے اس حوالے سے کہنے کیلئے ۔۔ لیکن موضوع کی نزاکت کے پیش نظر اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔۔ کہ سمجھداروں کے لیے اشارہ ہی کافی ہوا کرتا ہے ۔۔

اُمید کرتا ہوں ۔۔ کہ جہاں تک ہماری آواز جاسکتی ہے وہاں تک لوگوں میں اس حوالے سے ہم شعور پیدا کرنے کی کوشش ضرور کرینگے ۔۔ اور یہ بہت ضروری ہے خود ہماری عزت و آبرو کے لیے بھی -

احتیاطی تدابیر : ایک سادہ سی تدبیر یہ ہے ۔۔ کہ کسی بھی ٹائلٹ / شاور روم / فٹنگ روم وغیرہ میں داخل ہونے سے پہلے اپنے موبائیل کے سگنل چیک کرلیں ۔۔ اگر پھر اندر جاکر بھی چیک کرلیں ۔۔ اگر اچانک آپ کے موبائیل نے سگنل کم کردیئے ہیں ۔۔ یا ختم کردیئے ہیں ۔۔ تو وہاں پر خُفیہ کیمرہ ہونے کے نوے فی صد چانسز ہیں ۔۔ کوشش کریں ۔۔ کہ آپ وہ جگہ استعمال کئے بغیر چھوڑ دیں ۔۔ کیونکہ بہرحال احتیاط افسوس سے بہتر ہے ....(ماخوذ)
یہ مفید معلومات زیادہ سے زیادہ شئر کریں- شکریہ
عام پاکستانی

Thursday 27 June 2013

Afridi Voluntarily Offers To Leave ‘A’ Category Of Central Contract

Afridi Voluntarily Offers To Leave ‘A’ Category Of Central Contract

 Pakistan former captain Shahid Afridi has voluntarily offered to leave the ‘A’ category of Pakistan Cricket Board (PCB) central contract. Shahid Afridi is of the view that his performance in the last years or so in not up to the mark therefore he should not be selected in ‘A’ category and should be placed in ‘B’ category.


However PCB chairman Zaka Ashraf has rejected the offer of Shahid Afridi and has stated that this decision is final and will not be changed. Shahid Afridi decision was a very unique one as in Pakistan cricketers have never offered these type of things. When cricketers themselves take this type of decisions it shows that how much they are dedicated towards their game.
When PCB announced central contract for cricketers Shahid Afridi and Younis Khan was surprised to see his name in ‘A’ category. Both Afridi and Younis are not in the squad for ICC Champions Trophy which is to be held in England but both were awarded ‘A’ category. Zaka Ashraf has advised Afridi to focus on performance and return to national squad